Muraqba

مراقبہ کے کمالات
مراقبہ دراصل اس کیفیت کا نام ہے جسکے ذریعے انسان اپنی روح کا علم حاصل کرسکتاہے۔ لیکن صرف آنکھیں بند کر کے اور گردن جھکا کر بیٹھ جانا مراقبہ کے مکمل مفہوم کو پورا نہیں کرتا۔ یہ تو ایک آغاز ہے کہ جس کے بعد رفتہ رفتہ انسان خود کو ظاہری حواس ِ خمسہ سے لا تعلق اور آزاد کر کے باطنی حواس میں سفر کرنے لگتا ہے۔
خواب اور مراقبہ کا تعلق
مراقبہ سے ملتی جلتی کیفیت کہ جس میں ظاہری حواسِ خمسہ سے آزادی ہوتی ہے اور باطنی آنکھ کھلی ہوتی ہے، یہ مراقبہ کی مخصوص نشست کے بغیر بھی ہم سب میں موجود ہے ۔ مثلاً جب ہم سوتے ہیں تو اس حالت میں ہمارا دماغ ظاہری حواس سے تعلق عارضی طور پر توڑ لیتا ہے، اس دوران ہم کوئی سچا خواب بھی دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مراقبہ دراصل نیند کو بیداری میں منتقل کرنے کا نام ہے۔ تمام آسمانی کتابوں اور قرآن پاک میں خوابوں کا ذکر ملتا ہے۔
بیداری کی حالت میں انسان زمان و مکاں میں قید ہوتا ہے لیکن خواب کی حالت میں زمان و مکاں کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعہ خواب کو بیداری میں منتقل کر کے زمان و مکاں کی حد بندیوں سے آزادی حاصل کرنے کی مشق کی جاتی ہے اور مراقبہ کرنے والا اس دوران میں خواب کی کیفیات میں اسی طرح سفر کرتا ہے جس طرح کہ بیداری کی کیفیت میں سفر کیا جاتا ہے۔

روح کا علم
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان کو روح کامحدود علم دیا گیا ہے لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس محدود علم کا بھی تو کوئی مقصد ہوگا۔ اسی لیے اس علم کے جاننے والوں نے اس کو سمجھنے کے لئے چند فارمولے بنائے ہیں اور اپنے شاگردوں کو اس سے روشناس کرایا ہے۔ یہ علم کہاں سے شروع ہوا اور یہ فارمولے کس کس طرح ارتقاء پذیر ہوئے، اگر اس پر روشنی ڈالی جائے کہ تو بات طویل ہو جائے گی۔ دراصل ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ انسان حقیقت میں وہ نہیں ہے جسے انسان سمجھا جاتا ہے یعنی گوشت پوست اور ہڈیوں کا پنجر۔ انسان دراصل وہ ہے جو اس گوشت پوست کے جسم کومتحرک رکھتا ہے اور جس کو قرآن پاک نے روح کا نام دیا ہے۔ روح دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک جزو ہے اور اس جزو میں اللہ کی وہ تمام مشیت اور وہ تمام اوصاف جو اللہ نے ودیعت کرنا پسند فرمایا اس میں موجود ہے۔
غیب کی دنیا میں داخل ہونا یا زمان و مکاں سے ماوراء کسی چیز کو دیکھنا اسی وقت ممکن ہے جب آدمی خود زمان و مکاں سے آزاد ہو جائے، یعنی اسکی نظر زمان و مکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہو جائے۔ زمان و مکاں سے آزاد نظر حاصل کرنے کے لئے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جن سے انسانی ذہن اگر پوری طرح آزاد نہ بھی ہو تو ایسی صورتحال ضرور پیدا ہوسکتی کہ وہ آزادی سے قریب تر ہو جائے۔
مراقبہ یہ ہے کہ آدمی کا ذہن پوری یکسوئی کے ساتھ کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ مثلاً جب ہم کسی نہایت دلچسپ کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں ، اس وقت بھی زمان و مکاں کسی حد تک ہمارے ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ بعد میں ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اتنا طویل وقت گزر گیا اور پتہ بھی نہیں چلا۔
حضرت موسیٰ کا مراقبہ
قرآن پاک میں حضرت موسیٰ کے کوہِ طور پر چالیس راتیں گزارنے کا ذکر موجود ہے کہ جس دوران ان کے بھائی ہارونؑ انکی قوم پر نائب بنے رہے۔ حقیقت میں حضرت موسیٰ کوہ طور پر صرف چالیس راتیں نہیں رہے بلکہ انہوں نے وہاں مسلسل چالیس دن اور چالیس راتیں گزاریں۔ مگر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ صرف رات کا ذکر کرتے ہیں۔اس کا مطلب واضح ہے کہ حضرت موسیٰ پر چالیس دن اور چالیس راتیں‘ رات یعنی خواب کے حواس غالب رہے۔ وہی رات کے حواس جو زمان و مکاں سے کسی انسان کو آزاد کر دیتے ہیں۔ لہذا ثابت یہ ہوا کہ اگر کوئی انسان اپنے اوپر رات کے حواس غالب کر لے تو وہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور زمان و مکاں سے آزادی دراصل غیبی انکشافات کا ذریعہ ہے۔
نماز اور مراقبہ
قرآن پاک اس عمل کا نام ’’قیام الصلوٰۃ‘‘ رکھتا ہے جس کے ذریعے دن کے حواس سے آزادی حاصل کر کے رات کے حواس اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز قائم کرنے کا لازمی نتیجہ دن کے حواس سے آزادی اور رات کے حواس میں مرکزیت‘ حاصل ہونا ہے۔ نماز کے ساتھ لفظ ’’قائم کرنا‘‘ اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی نماز اپنی اس بنیادی شرط کو پورا نہیں کرپاتی کہ وہ کسی شخص کو رات کے حواس سے متعارف کرا دے تو وہ حقیقی نماز نہیں ہے۔
اس سلسلے میں حضرت علیؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔کسی جنگ میں دشمن کا ایک تیر حضرت علیؓ کی پشت میں پیوست ہو گیا۔ جب اس تیر کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو حضرت علیؓ نے تکلیف محسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نماز قائم کرتا ہوں، تم تیر نکال دینا‘‘۔ حضرت علیؓ نے نماز شروع کی تو لوگوں نے تیر کو نکال لیا اور مرہم پٹی کر دی۔ لیکن حضرت علیؓ کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ تیر نکال دیا گیا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قیام نمازکے ذریعے ان حواس سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے جن میں تکلیف اور پابندی موجود ہے۔ حضرت علیؓ نے جب نماز شروع کی تو ان کا ذہن دن کے حواس سے نکل کر رات کے حواس میں پہنچ گیا اور ان کی توجہ دن کے حواس (یعنی پابندی اور تکلیف) سے ہٹ گئی۔
مراقبہ میں رکاوٹ
روحانیت میں مراقبہ دراصل ایک مشق‘ کوشش اور طرز فکر کا نام ہے جس کے ذریعہ کوئی آدمی بیداری کے حواس کو قائم رکھتے ہوئے رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ چونکہ بیداری کے حواس سے رات کے حواس میں داخل ہونا اس کی روزمرہ عادت کے خلاف ہے، اس لئے جب وہ اس راستے پر قدم بڑھاتا ہے تو بیداری کے حواس اور شعور پر ضرب پڑتی ہے ۔ لہذا کسی ایسے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے جو صاحبِ نظر ہو اور اس راہ سے گزر چُکا ہو تا کہ وہ آدمی کو راستے کی رکاوٹوں سے بچاتا ہوا لاشعور میں داخل کر دے۔

 


 
 


اپنے تاثرات بیان کریں !