Aura and Personality

اورا کیا ہے؟
اورا دراصل مختلف رنگوں کی روشنیوں کا ہالہ ہے جو ایک ہیولے کی طرح ہر انسانی جسم کے گرد موجودہوتا ہے۔ یہ لطیف جسم بالکل انسان کے مادی جسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ جسمانی و ذہنی کیفیات کے مطابق مختلف رنگ اور ارتعاش تبدیل کرتا رہتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام تر تقاضے اسی روشنی کے جسم کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
شروع شروع میں مادہ پرست سائنسدان یہ سمجھتے رہے کہ انسان محض مادی جسم ہے جس میں کہیں روح کی ضرورت نہیں، لیکن اس جدید دور میں سائنسدان خود انسانی باطن کو دریافت کر بیٹھے ہیں اور انسان کے اندر موجود اس پیچیدہ نظام کو دیکھ کر حیران ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ 1930ء کی دہائی میں کر لین نامی سائنسدان نے اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے پہلی دفعہ انسان کے باطنی لطیف جسم Aura کی تصویر کشی کر لی۔ اس طریقے کو ''کرلین فوٹوگرافی'' کہتے ہیں۔
اورا کے رنگ
اورا کی شعاعیں ہرآدمی کے جسم سے خارج ہوتی ہیں، انکا رنگ ہر انسان کے موڈ، مزاج، دلچسپی، قابلیت اور صحت کے مطابق ہوتا ہے۔خوشی میں شعاعوں کا رنگ کچھ اور ہوتا ہے، غم میں کچھ اور۔ موت سے ذرا پہلے Aura کا رنگ نیلگوں مائل سیاہ ہو جاتا ہے۔ انسانی گوشت پوست کے جسم کا دارومدار اس Auraپرہے۔ Auraکے اندر صحت مندی موجود ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی صحت مند ہے۔
نیک انسان اوربدانسان کی شعاعوں کا رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق اپنے گرد ایک خول بنالیتا ہے۔ بدکار کا ماحول دیوار کی طرح سخت ہوتا ہے جس سے نہ کوئی فریاد یا دعا باہر جاسکتی ہے اور نہ کاسمک ورلڈ کے عمدہ اثرات اندر آسکتے ہیں۔ ایسا آدمی خفیہ طاقتوں کی امداد سے محروم ہو جاتا ہے۔جبکہ نیک انسان کا Aura اسے ناقابل یقین فائدے پہنچا سکتا ہے، بلکہ روحانی کرشمے دکھا سکتا ہے اور اسے سپر نیچرل بنا سکتا ہے۔

Astral Projection
انسانی جسم کے ہالے پر اگر سنہری رنگ غالب ہو تو ایسا شخص روحانیت میں کافی ترقی یافتہ ہوتا ہے، یہ رنگ روحانی ترقی، سکون قلب اور بھرپور روحانی زندگی کی علامت ہے۔ یہ عشق صادق اور اعلیٰ خیالی کی بھی نشانی ہے۔ سنہری رنگ کے بعد نیلے رنگ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جس شخص کے Aura میں گہرا نیلا رنگ نمایاں ہو اس میں پرجوش مذہبی لگن اور گہرا روحانی عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اگر اس نیلاہٹ پر سیاہی غالب آجائے تو سرد مہری، افسردگی اور بے چینی کی علامت ہے۔ انسان پر مختلف جذبات کے زیر اثر دیگر رنگ بھی چڑھتے اترتے رہتے ہیں۔
نیلے کے بعد سبز رنگ کا نمبر آتا ہے۔ یہ رنگ سرسبزی، امید پسندی اور شادابی کی علامت ہے۔ ایسے شخص کے کردار میں ذہانت، ثابت قدمی، خود شناسی، افادیت پسندی اور عملی سوجھ بوجھ موجود ہوگی۔ ایسا شخص خود کو ہر ماحول میں ڈھال کر غیر معمولی دنیاوی ترقی کرتا ہے۔ دھندلا سبز یا نیلا سبز رنگ، حسد، رشک اور غضب کے جذبے کو ظاہرکرتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ بزنس اور انڈسٹری میں صرف وہی لوگ آگے بڑھنے کی استعداد رکھتے ہیں جن کے جسم سے نکلنے والی شعاعوں سے صاف و شفاف سبز رنگ نکلتا ہے۔ اگر سبز رنگ کے ساتھ بھورے یا بادامی رنگ کی ملاوٹ ہو تو انسانی رویے میں ہچکچاہٹ اور اعتماد کی کمی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
اورا کے موضوع سے ہٹ کر لیکن اسی سے متعلقہ ایک نکتہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی سے علاج کے ماہرین رنگین بوتلوں کے پانی سےلوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ مختلف رنگوں کی بوتلوں میں سادہ پانی بھر کر دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ سورج تمام زندگی، شادابی، توانائی، صحت، تازگی، اور حرارت کا سرچشمہ ہے۔ سورج کی کرن اتنے وٹامنز سے لبریز ہوتی ہے کہ ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ مختلف رنگ کی سادہ پانی سے بھری ہوئی بوتلیں اپنے نیلے، سبز، سرخ یا دوسرے رنگ کی مناسبت سے سورج کی توانائی جذب کرلیتی ہیں، اس طرح معمولی پانی ’’آب حیات‘‘ بن جاتا ہے۔قدرتی علاج کے ماہرین اس صحت بخش توانائی سے فائدہ اٹھا کر پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کے علاج پر قادر ہوتے ہیں۔
قدیم دور میں Aura کا تذکرہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی باطن کا مشاہدہ کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں جو محدود سے لامحدود دنیا کا سفر کرتے رہے ہیں۔ اورانہوں نے اپنی زبان، اپنے الفاظ اور اپنے انداز فکر میں اس کا تعارف کروانے کی کوشش بھی کی ہے۔ Aura کی دریافت تو دورِجدید میں ہوئی ہے لیکن تمام ادوار میں انسان کے اس باطنی جسم کا تذکرہ ہوتا آیا ہے، بلکہ Aura سے متعلق ماضی کی معلومات آج کی جدید تحقیقات کے مقابلے میں زیادہ مستند معلومات ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی باطن کا مشاہدہ کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں جو محدود سے لامحدود دنیا کا سفر کرتے رہے ہیں۔ اورانہوں نے اپنی زبان، اپنے الفاظ اور اپنے انداز فکر میں اس کا تعارف کروانے کی کوشش بھی کی ہے۔ Aura کی دریافت تو دورِجدید میں ہوئی ہے لیکن تمام ادوار میں انسان کے اس باطنی جسم کا تذکرہ ہوتا آیا ہے، بلکہ Aura سے متعلق ماضی کی معلومات آج کی جدید تحقیقات کے مقابلے میں زیادہ مستند معلومات ہیں۔
مثلاً قدیم ادوار کی تصویروں اور مجسموں میں یونانی، رومی، ہندو، بدھ اور عیسائی مذہبی شخصیات کے جسم کے گرد ان کا ہیولا ضرور دکھایا جاتا تھا اور اسکا نام بھی اورا سے ملتا جلتا تھا۔ آج اسی مناسبت سے ہی دریافت شدہ روشنیوں کے جسم کا نام Aura رکھا گیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ قدیم زمانے میں حساس اور روحانی مزاج رکھنے والے لوگوں نے بغیر کسی سائنسی آلے کے انسان کےگرد موجود ہالۂ نور کو دیکھ لیا تھا۔
افلاطون کی تحریروں میں بھی موت کے واقعات میں Aura کا تذکرہ موجود ہے۔ ارسطو نے اسے روح حیوانی کہا جبکہ ہزاروں سال پہلے مصرکے فرعون بھی اس سے واقف تھے۔ تبت کے علاقے کے لاما یعنی روحانی شخصیات ہوا میں اڑنے اور اپنے Aura کو جسم سے الگ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ قدیم چینیوں میں بھی Aura کا تصور پایا جاتا تھا۔ مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور بدھ مت میں ایسے روحانی ماہرین پائے جاتے تھے جو نہ صرف اپنے Aura کو جسم سے الگ کر لیتے تھے بلکہ اس سے کام بھی لیتے تھے، ہوا میں اڑکر پلک جھپکتے میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لیتے اور بہت سے روحانی کرشمے دکھاتے تھے۔
مسلمانوں کی قدیم تحریروں میں بھی جا بجا Aura اور اس کی خصوصیات کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تذکرے آج کی تحقیقات سے سو فیصد مماثلت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے Aura کو دیگر ناموں سے پکارا ہے مثلاً جسم مثالی، جسم نورانی، روح ہوائی، وغیرہ ۔ مسلمانوں نے روح پر نہایت بہترین فکری و عملی بحث کی۔ انہوں نے پہلی مرتبہ روح، نفس اور جسم کا سائنسی انداز میں تذکرہ کیا۔ لیکن یہ ابتداء تھی، اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے تھا لیکن وہ اس کو عملی اور تجرباتی سطح پر نہ لاسکے، اگرایسا ہو جاتا توعام آدمی کے لیے بہت سے معاملات سلجھ چکے ہوتے۔
جدید ریسرچ
اگرچہ Aura کا تذکرہ ہزاروں برس سے ہو رہا تھا لیکن چونکہ یہ عام آنکھ سے نظر نہیں آتا اس لیے مادی سائنسدان انسان کے باطن کو غیر مرئی اور غیر اہم کہہ کر جھٹلاتے آ رہے تھے۔ 1882ء میں لندن میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ روح اور اس کے متعلقہ مسائل پر ریسرچ کی جائے۔ اس کمیٹی میں یورپ کے ممتاز علماء اور سائنسدان شامل تھے۔ یہ کمیٹی چالیس سال قائم رہی اور اس دوران انہوں نے حاضراتِ ارواح کے مختلف واقعات کی جانچ پڑتال کی اور چالیس ضخیم جلدوں میں اپنے تاثرات کو شائع کیا۔ بالآخر یہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ انسان کی جسمانی شخصیت کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے جو گوشت پوست کے جسم سے کہیں زیادہ مکمل اور اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہی اعلیٰ و ارفع شخصیت موت کے بعد قائم اور برقرار رہتی ہے۔پھر کچھ سائنسدان اسے الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ (E.M.F) ، ہیومن انرجی فیلڈ اور بائیو انرجی کا نام دینے لگے اور بالآخر سائنسدان 1930ء میں Aura کی تصویر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جس طرح ایٹم کے اندر ایک جہان دریافت ہو چکا ہے اور یہ دریافتیں تا حال جاری ہیں اسی طرح انسان کے اندر بھی انسانوں نے ایک جہان دریافت کر لیا ہے۔ آج مغربی ممالک کی لیبارٹریز میں Aura پر تحقیق و تحریر کا خوب کام ہو رہا ہے، کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ بلکہ وہ لوگ تو اس Aura کے ذریعے جاسوسی کا کام بھی لے رہے ہیں اورکسی انسان کے دماغ کو کنٹرول کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں انسان کے روحانی پہلو پر سائنسی تجربات ہو رہے ہیں اور سائنسدان ایٹم کی طرح انسان کے اندربھی جھانک کر اس وسیع و عریض روحانی دنیا کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں، لیکن ابھی زیادہ سمجھ نہیں پا رہے۔
طاقتور Aura کے کرشمے
آپ نے کبھی سڑک کنارے اندھا، گونگا، بہرا اور دق زدہ شخص بھیک مانگتا دیکھا ہوگا، جس پر کتے بھونک رہے ہوں، چہرے پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں، منہ سے رال بہہ رہی ہو۔ آپ آگے بڑھیے، اس کا ہاتھ پکڑیے اور کہیے کہ اے سڑک پر کتے بلی کی طرح زندگی بسر کرنے والے اپاہج شخص، تیرا جسم کتنا ہی بیکار کیوں نہ سہی، تیرے اندر کا انسان ایسی عظیم، لافانی، امر، اٹل اور حیرت انگیز قوتوں کا مالک ہے کہ تو اس اندرونی قوت کا اگر دسواں حصہ بھی اپنے استعمال میں لے آئے تو پوری کائنات کو فتح کرسکتا ہے۔
خلا میں ہزاروں میل رفتار سے چکر لگانے والا خلاباز ہو یا سڑکوں پر دھکے کھانے والا بھکاری، یہ دونوں قدرت کے عظیم شاہکار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک شخص نے اپنی قوت کو پہچان لیا اور دوسرا اپنی عظمت سے بے خبر ہے۔ دنیا کا ہر انسان، انسان برتر ہے، ہر عورت کامل عورت ہے، ہر مرد کامل مرد، ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عجائبات اور روح کی طاقت سے واقف ہوجائیں۔

 


 
 


اپنے تاثرات بیان کریں !