Edger Cayce Sixth Sense in Urdu

ایڈگر۔۔ جس کی چھٹی حس نہایت طاقتور تھی!
ایڈگر۔۔ جس کی چھٹی حس نہایت طاقتور تھی!
ایڈگر (1945ء - 1877ء) میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ دور دراز موجود مریض کا صرف نام اور ایڈریس معلوم کرتا تھا اور پھر اپنی آنکھیں بند کر لیتاتھا۔ اسکے بعد وہ خیالی طور پر اس مریض کے پاس پہنچ جاتا اور اسکی بیماری کی وجوہات اور دوائیں خود بخود اسکے ذہن میں آجاتی تھیں۔ جنہیں وہ نیم غنودگی کی حالت میں بیان بھی کردیتا تھا۔اسےعمل کو وہ Reading کا نام دیا کرتا تھا۔ ایڈگر کی چودہ ہزار سے زائد Readingsکی تفصیلات کتابی صورت میں دنیا کی تمام بڑی لائبریریوں میں موجود ہیں۔
دراصل ایڈگر کی چھٹی حس بہت طاقتور تھی۔ وہ مستقبل کے واقعات کی بھی پہلے سے نشاندہی کر دیتا تھا۔دور دراز بیٹھے لوگوں کے متعلق بھی صحیح صحیح بتا دیتا تھا۔اسکے علاوہ زمین میں چھپے ہوئے خزانوں اور معدنیات کو بھی دیکھ لیتا تھا۔ وہ یہ تمام معلومات بیداری کی حالت میں نہیں بلکہ خود کو غنودگی کی حالت میں لے جا کر حاصل کرتا تھا۔

ایڈگر کا بچپن
ایڈگر 1877ء میں امریکہ میں پیدا ہوا۔اسکا مزاج عام بچوں سے مختلف تھا۔ وہ تنہائی پسند تھا۔سکول میں اسکی کارکردگی زیادہ بہتر نہ تھی۔ لیکن اس میں ایک عجیب خوبی تھی کہ اگر کسی لفظ کےسپیلنگ اسے نہ آتے تو چند لمحے اونگھنے کے بعد وہ خود بخود درست سپیلنگ بتا دیتا تھا۔
ایک مرتبہ اسے سکول میں چوٹ لگ گئی اور گھر پہنچتے پہنچتے وہ تکلیف کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔ اس کے والدین شدید پریشان تھے۔ وہ ایک قصبے میں رہتے تھے اور آس پاس کوئی اچھا ڈاکٹر بھی نہ تھا۔اچانک بے ہوشی کی حالت میں ایڈگر کی آواز سنائی دی: "اسکول میں کھیلتے ہوئے میری ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ لگ گئی ہے۔ اگر فلاں فلاں جڑی بوٹیوں سے مرہم بنا کر میری چوٹ کی جگہ لگایا جائے تو میں ٹھیک ہو جاؤں گا، ورنہ مجھے بہت نقصان پہنچے گا"۔ ایڈگر کے والدین نے فوراً ان ہدایات پر عمل کیا اور کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آگیا۔
عملی زندگی کا آغاز
سولہ سال کی عمر میں ایڈگر سکول کی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔اب اسے چچا کے کھیتوں پر کام کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ وہ ذہنی طور پر پرندوں سے بات چیت کر سکتا ہےاور ان کی باتیں سمجھ بھی سکتا ہے۔
کچھ عرصے بعد ایڈگر کو ایک بُک سٹور پر ملازمت مل گئی اور اسے کتابوں کا مطالعہ کرنے کااپنا شوق پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کے علاوہ وہ چند گرجا گھروں میں جا کر لیکچربھی دینے لگا۔ایک دن ایڈگر کی ملاقات ایک لڑکی گروٹرڈ سے ہوئی، جواسکے سٹور پر کتابیں خریدنے آئی تھی۔ باتوں باتوں میں ایڈگر نے اس سے اپنی چھٹی حس کا ذکر بھی کردیا اور بتایا کہ وہ اپنی اس صلاحیت کو لوگوں کی بھلائی کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ایڈگر اور گروٹرڈ کے خیالات ایک جیسے تھے۔ کچھ عرصے بعد ایڈگر نے گروٹرڈ کے والدین سے اس سے شادی کےلئے درخواست کی، جسے انہوں نے قبول کرلیا۔
پراسرار انکشاف
ایڈگر نے انشورنس ایجنٹ بن کر سخت محنت شروع کردی تاکہ شادی کے لئے رقم کا بندوبست کر سکے۔ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسکی آواز کم ہوگئی۔کئی علاج کروائےگئے،مگر اس کی آواز مزید آہستہ ہوتی چلی گئی۔بالآخراسے علاج کے لئے ایک ماہر ہپناٹزم کے پاس لے جایا گیا۔جب اس نے ایڈگر کو ہپناٹائز کیا تو غنودگی کی حالت میں ایڈگر نے خود ہی اپنے لئے دوائیاں تجویز کردیں۔ بیداری کی حالت میں آکر وہ بہت حیران ہوا کیونکہ اسکی تعلیم نہایت معمولی تھی اور ان دوائیوں کے نام اس نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔دوائیاں استعمال کرنے سے اسکی آواز بحال ہوگئی ۔
اس واقعہ کے بعد ایڈگر کے ذہن میں دوسرے لوگوں کا علاج کرنے کا خیال آیا۔ اس نے ماہر ہپناٹزم کو اپنے ساتھ ملا لیا،جو اسے ہپناٹائز کرتااور وہ غنودگی کی حالت میں لوگوں کی بیماری کی تشخیص کرتا اور ادویات بھی تجویز کرتا۔وہ مریضوں سے کوئی پیسہ نہ لیتا تھا۔ اپنے گزر بسر کے لئے اس نےایک فوٹوگرافر کے پاس جاب حاصل کرلی تھی۔
یوں مریضوں کے فری علاج کا سلسہ چل پڑا۔ایک دن ایک بچی کو شدید تکلیف کی حالت میں اسکے پاس لایا گیا۔کئی ایکسرے کرانے کے بعد بھی ڈاکٹروں کو اسکی تکلیف سمجھ نہ آرہی تھی۔ ایڈگر نے اپنی صلاحیت کے ذریعے بتایا کہ بچی نے ایک بٹن نگل لیا ہے جو اسکی آنت میں پھنس چکا ہے اور ایکسرے میں بھی نظر نہیں آرہا۔ ڈاکٹروں نے اسکا آپریشن کرکے اس بٹن کو نکال لیا۔
اسی طرح ایک شخص نے ایڈگر سے رابطہ کیا جس کی بیٹی کی عمر دس سال تھی مگر ذہن بچوں والا تھا۔ایڈگر نے اپنی صلاحیت کے ذریعے بتایاکہ بچی کم عمری میں ایک بارگھوڑا گاڑی سے گر گئی تھی، جسکی وجہ سے اسکی ریڑھ کی ہڈی کا ایک مہرہ سرک گیا۔ فوری علاج نہ ہونے کی وجہ سے اسکی ذہنی نشونما رک چکی ہے۔اگر آپریشن کرکے یہ مہرہ اپنی جگہ بٹھا دیا جائے تو لڑکی ٹھیک ہو جائےگی۔یہ سب سن کر لڑکی کا باپ حیران رہ گیا۔ کیونکہ بچپن میں واقعی وہ گھوڑا گاڑی سے گر پڑی تھی۔ بہرحال ڈاکٹروں نے آپریشن کر کے مہرہ درست جگہ فکس کردیا اور تھوڑے عرصے بعد وہ ذہنی طور پر تندرست ہوگئی۔
آہستہ آہستہ ایڈگر پر یہ انکشاف بھی ہو گیا کہ وہ غنودگی کی حالت میں کئی میل دور موجود مریض کی بھی درست تشخیص بیان کر سکتا تھا۔
عارضی پابندی
ایڈگر کی شہرت اپنے علاقے میں پھیلتی گئی لیکن چونکہ اس نے میڈیکل کی با قاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی لہذا مقامی ڈاکٹروں کی تنظیم نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ لہذا ایڈگر نےڈاکٹر بننے کے لئے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ میڈیکل کالج میں موجود ڈاکٹرز بھی اسکی خفیہ صلاحیتیں دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
میڈیکل کالج میں دلچسپ واقعات
ایک مرتبہ اسکی کلاس فیلولڑکی نے اسے بتایا کہ میرے باپ کی تجوری سے رقم پر اسرار طور پر غائب ہو رہی ہے مگر چور کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایڈگر نے چور کا نام اور حلیہ بتا دیا۔ لڑکی فوراً جان گئی کہ چور اس کے باپ کا ملازم تھا۔
اسی طرح شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر نے ایڈگر سے اپنے ایک دوست اینی موری کے متعلق پوچھا جو کہ سینکڑوں میل دور نیو یارک میں مقیم تھا۔ ایڈگر نے اپنی مخصوص غنودگی کی کیفیت میں جا کر اینی موری کی مصروفیات کے متعلق بتانا شروع کر دیا کہ اس وقت اینی موری ایک دکان سے سگار خرید کر اپنے دفتر میں داخل ہو رہا ہے۔ دفتر میں اس کے کمرے کے باہر اس کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ کمرے میں ایک آدمی اس کا انتظار کر رہا ہے اور اپنے مکان کی فروخت کے سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔ اس آدمی کے رخصت ہونے کے بعد اینی موری نے اپنے خطوط دیکھنے شروع کر دیے ہیں۔ ایک خط کے لفافے میں کوئی بل ہے۔ دوسرے لفافے میں کاروباری لیٹر ہے، جبکہ تیسرا خط اسے کسی دوست کی طرف سے آیا ہے، جسے پڑھتے ہوئے وہ کافی خوش لگ رہا ہے۔
ایڈگر کے بیدار ہونے کے بعد اس ڈاکٹر نے نیو یارک میں مقیم اپنے دوست اینی موری کو ٹیلی گرام بھیج کر اسکی اس وقت کے دوران مصروفیات پوچھیں۔ کچھ دیر بعد ٹیلی گرام موصول ہوا جس میں ہو بہو وہی تفصیلات درج تھیں جو کچھ دیر بعد پہلے ایڈگر بتا چکا تھا۔ جیسے ہی اینی موری کو اس سارے واقعہ کا پتہ چلا، وہ فوراً نیو یارک سے ایڈگر کے پاس پہنچا اور اُسے اپنے ساتھ نیویارک میں رہائش کی پیشکش کی۔ لیکن ایڈگر اپنا علاقہ چھوڑنے پر راضی نہ ہوا۔البتہ اینی موری کی فرمائش پر کچھ دیر کے لیے غنودگی کی حالت میں جا کر اسے کچھ معلومات دے دیں۔ اینی موری کے رخصت ہونے کے بعد ایڈگر کواچانک اپنی طبیعت نہایت بوجھل محسوس ہوئی اور سر میں شدید درد شروع ہو گیا۔ چند دنوں کے بعد اسے اس کی وجہ سمجھ آگئی کیونکہ اینی موری کو پولیس نے کسی کی رقم چوری کرتے ہوئے پکڑلیا تھا۔ دراصل اینی موری نے غنودگی کی حالت میں ایڈگر سے کسی کی خفیہ رقم کے متعلق معلومات حاصل کر لی تھیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ کوئی منفی سوال پوچھے جانے پر ایڈگر کا ذہن ڈسٹرب ہو جاتا تھا۔
انہی دنوں ایڈگر نے چند ریلوے حادثات کی وجوہات کے بارے میں درست معلومات دیں۔ نیز پولیس نے بھی اپنے الجھے ہوئے کیسوںمیں اس سے مدد لینی شروع کر دی۔

ملک گیر شہرت
ایڈگر 33 برس کا ہو چکا تھا۔انہی دنوں ایک بڑے ڈاکٹر نے ایڈگر کے حل کردہ چند میڈیکل کیسوں کے بارے میں اپنی ریسرچ شائع کی تو پورے امریکہ میں کھلبلی سی مچ گئی اور ہر اخبار میں ایڈگر کے بارے میں خبریں اور کالم شائع ہونے لگے۔
اب امریکہ کے چند بڑے ڈاکٹروں نے خدمتِ خلق کے جذبے سے ایک کمیٹی بنا لی اور ایڈگر کی مدد سے پیچیدہ کیسز کو حل کرنے لگے۔ ایڈگر ان شرائط پر انکے ساتھ کام کرنے پر راضی ہوا کہ وہ اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ نہ لے گا۔ نیز غنودگی کے دوران اسکی بیوی یا والد کی موجودگی ضروری ہو گی تاکہ کوئی لالچ میں اس سے منفی معلومات حاصل نہ کر سکے۔
ایڈگر کی عالمی پیشن گوئیاں
ایڈگر نے اپنی چھٹی حس کے ذریعے عالمی سیاست اور سائنس کے متعلق بھی پیشن گوئیاں کیں جو بعد میں سچ ثابت ہوئیں۔ مثلاً:
  • پہلی عالمی جنگ 1914ء
  • دوسری عالمی جنگ 1939ء
  • ہٹلر کی فتوحات
  • پاکستان اور بھارت کی برطانیہ سے آزادی
  • سوویت یونین کا ٹوٹنا اور روس کا بننا
  • آواز اور ویڈیو کا ایک سے دوسری جگہ فوراً پہنچنا (یعنی آج کے دور کا ٹی وی اور موبائل)
  • خلاء میں ایک نئے سیارے کی موجودگی (جسے بعدمیں پلوٹو کے نام سے دریافت کیا گیا)
  • بعض علاقوں میں زیرِزمین قیمتی معدنیات کی موجودگی
  • زلزلوں کی وجوہات کی دریافت (کہ زمین کے اندر موجود چٹانیں خاص طریقے سے حرکت کرتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے)
پر اسرار علوم پر کتابیں
ایڈگر نے اپنی پر اسرار صلاحیت کے ذریعے اورا (Aura)، کلر تھراپی، خوابوں، اہرامِ مصر، سمندر میں ڈوبے ہوئے قدیم شہر اٹلانٹس اور دیگر ماورائی علوم پر کئی کتابیں لکھیں۔ایڈگر کا موقف تھا کہ کائناتی ذہن یا لا شعور (Universal Mind) ہر انسان کے اندر ایک دریا کی طرح بہہ رہا ہے اور ہر انسان اس سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔
اورا (Aura) پر تحقیق
اورا مختلف رنگوں کی روشنی کےہالہ کو کہتے ہیں، جو ہر انسان کے گرد موجود ہوتا ہے لیکن آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ البتہ ایسے سائنسی آلات موجود ہیں جن کی مدد سے کسی شخص کا اورا کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غصہ، افسردگی، حسد، محبت، نفرت، انتقام یا بیماری کی حالت میں انسان کے اورا کا رنگ بدل جاتا ہے۔ لہذا Aura کو دیکھ کر کسی شخص کی اندرونی کیفیت کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔
ایڈگر میں یہ صلاحیت بھی موجود تھی کہ وہ کسی شخص کا اورا دیکھ کر اس کی خصوصیات، عادات اور جسمانی و ذہنی کیفیت جان لیتا تھا۔ایڈگر نے اس حوالے سے ایک چارٹ تیار کیا جس میں اورا کے رنگوں اور انسان کی کیفیات سے متعلق نہایت تفصیل سے معلومات موجود ہیں۔
ایڈگر کا انتقال
1944ء میں ایڈگر شدید بیمار ہو گیا۔ اس نے اپنے متعلق پیشن گوئی کی کہ وہ 5 جنوری 1945ء کو اس عارضی دنیا سے چلا جائے گا۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا اور اس دن وہ 67 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ اسکےتین ماہ بعد اسکی وفادار بیوی گروٹرڈ کا بھی انتقال ہو گیا۔
ایڈگر کا فلاحی ادارہ
امریکہ میں آج بھی ایڈگر کا قائم کردہ ادارہ Association for Research & Enlightenment-ARE، ایک بہت بڑا ہسپتال اور اٹلانٹک یونیورسٹی موجود ہیں۔ یہاں انسان کی خفیہ صلاحیتوں، خوابوں، رنگ و روشنی سے علاج، سائیکالوجی اور Aura پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ اس ادارہ اور یونیورسٹی کے زیرِ انتظام پر اسرار علوم پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

 


 
 


اپنے تاثرات بیان کریں !